منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

…قاضی علی مصطفیٰ قریش…

محسن بھوپالی نے کہا تھا

                   نیرنگی   سیاست    دوراں    تو    دیکھئے                  
   منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کبھی ثمربار نہیں ہوتی۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جا سکتا ہے مگر یہ عمل وقتی ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کبھی جھوٹ میں ڈھل نہیں سکتی۔اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی پاکستانیات اور تاریخ، تاریخ کے ساتھ مذاق ہے اور اسے سیاسی چمگادڑوں نے ایک خاص مصلحت کے تحت تیار کیا ہے۔

آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں اور یہ ڈرامہ آج سے نہیں پچھلے ساٹھ سالوں سے تواتر کے ساتھ پاکستان کے بھوکے ننگے عوام کو دکھایا جا رہا ہے اور شاید دکھایا جاتا رہے گا کہ بھوکے ننگے عوام کا مسئلہ روٹی کا ہے اور بقول شیخ ایاز بھوکے کو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے۔

پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی بلکہ پنجاب میں ہمیشہ یونیسٹ پارٹی ہی سیاسی شطرنج پر راج کرتی رہی۔

 آج پنجاب پاکستان کی سیاست کا پیش رو اور رہنما بنا ہوا ہے۔ محض آباد ی کی اکثریت کی وجہ سے پنجاب پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے تو محسن بھوپالی کہتے ہیں کہ منزل انہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے۔

بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جیسے Frontier Gandhi کے ”اعلیٰ و ارفع“خطاب سے نوازا گیا۔ آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟

 

بعض اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟

درباری ملاؤں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی ڈکٹیٹر کو نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں وہاں یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔خدا کی لعنت ہو ایسے ملاؤں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔

اب آگے چلتے ہیں۔تحریک پاکستان میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں نے جتنا ساتھ دیا۔اتنا ساتھ سندھ کے سوا، کسی نے نہیں دیا جو آج پاکستان میں شامل ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قائداعظم کے پاس آبادی کی منتقلی کا کوئی پلان نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلم لیگ نے کبھی بھی بھارت سے مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی ۔

چاہے وہ مسلم لیگ کا قیام ہو، علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد ہواور لاہور کی قرارداد ہو۔ کہیں بھی مہاجرین کا ذکر تک نہیں مگر اس کے باوجود کلکتہ، پٹنہ، بہار اور دوسرے صوبوں نے جس میں مسلمان اقلیت میں تھے بھرپور ساتھ دیا اس وجہ سے نہیں کہ وہ پاکستان آنا چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ وہ کانگریس اور ہندو بنیے کو دھول چٹانا چاہتے تھے۔

علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد جو انہوں نے 1930 ء میں دیا، واضح طور پر اشارہ تھا کہ صرف وہ خطے جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں انہیں ایک علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیا جائے۔

1936 ء کے الیکشن میں قائداعظم کی مسلم لیگ کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا مگر 1936 ء میں کانگریس کی جن صوبوں میں حکومت قائم ہوئی وہاں کے مسلمانوں کے( جو اقلیت میں تھے )آنکھیں کھل گئیں
۔ظلم و ستم کے پہاڑ، جبر کے طوفان، خونریزی اور قیامت خیز شر انگزیاں کچھ اس طرح سے کانگریس نے روا رکھیں کہ مسلمانوں نے تہیہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ بنیے کی ذہنیت کا مقابلہ کریں گے اس ظلم ستم پر رپورٹیں شائع ہوئیں جن میں مشہور رپورٹیں ”شریف رپورٹ“وغیرہ میں بنگال کے بارے میں ایک رپورٹ Muslims suffering in bengal بھی شائع ہوئی۔

غرض یہ کہ 1940 ء میں قرارداد لاہور پاس ہوئی۔ جس میں کم و بیش خطبہ الہٰ آبادکو ہی دہرایا گیا ۔اقلیتی صوبوں والے مسلمان یہ جانتے تھے کہ ان کے بارے میں مسلم لیگ سنجیدہ نہیں مگر ان کا پاکستان کے جنون اور پاکستانی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے شاید وہ پیار تھا جس کی نظیر کم از کم دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

بہرکیف، قصہ مختصر بھارتی اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے دامے درمے سخنے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اپنے لہو سے تحریک پاکستان کو سینچا مگر اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نہ تو قائداعظم اور نہ ہی مسلم لیگ کے پاس آبادی کی تقسیم کا کوئی واضح فارمولا موجود تھا۔ اسے زیادہ سے زیادہ تحریک پاکستان کا fallout کہا جا سکتا ہے۔

دو قومی نظریہ جسے عام طور پر سرسید سے جوڑا جاتا ہے اور طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
 دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔

 1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ(جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔

 سرسید سے بہت پہلے لالہ لجپت رائے اور دوسرے بہت سے بھارتی دو قومی نظریہ دے چکے تھے مگر جانے کیا وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر باندھا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا

 وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان میں تاریخ کو جتنا مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے شاید ہی کسی اور ملک میں کیا گیا ہو۔

یہ اور ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے بھوپالی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ منزل ایسے لوگوں کو ملی جو کبھی اس سفر میں شریک ہی نہ تھے آج پاکستان کی زبوں حالی پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

 

پاکستان کا نوجوان تباہ ہے، برباد حال اور شکستہ دل ہے وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا۔ معاش کے چکر میں اس طرح الجھا ہے جیسا کولہو کا بیل، چکر پر چکر کھائے جا رہا ہے مگر سفر ہے کہ تمام ہو کر نہیں دیتا۔

قاضی علی مصطفیٰ قریش کی گزشتہ پوسٹ  

شہر قائد لہو لہو……آخری قسط

شہر قائد لہو لہو……دوسری قسط

   شہر قائد لہو لہو…پہلی قسط

   صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

   قافلہ تو چل پڑا…آخری قسط 

   قافلہ تو چل پڑا…پہلی قسط  

1 Responses to منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

تبصرہ کریں