14 اگست اور تاحد نگاہ پانی ہی پانی

…ملک شکیل…

میرا نام 14 اگست ہے۔ہاں…میں 14 اگست ہوں لیکن ہمیشہ کی طرح آج میں خوش نہیں۔آج میں پریشان ہوں۔آج میں سوگ کی کیفیت میں ہوں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا، تب سے آج تک میں نے بہت سارے اُتار چڑھاؤ آئے، مشکل صورت حال بھی میں نے دیکھی لیکن اس دفعہ…مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کہوں۔کیا پیغام دوں۔

جس طرف نگاہ دوڑاتا ہوں ہر طرف پانی پانی نظر آتا ہے ۔اور جب میں اخبار کی شہ سرخیاں دیکھتا ہوں، خبریں سنتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ نقصان اربوں ڈالر میں ہے۔ کروڑوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔لاکھوں لوگوں کے گھرتباہ ہو چکے ہیں۔نہیں …میں یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ کیوں…ایسا کیوں ہوا۔

میرے ذہن میں بہت ساری باتیں آ رہی ہیں۔ میرا تعلق جس ملک سے ہے، جس دھرتی سے ہے، اس کی بنیاد تو کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔وہ تو رمضان کے مقدس مہینے میں معرض وجود میں آیا۔

پھر کیوں اتنا عذاب۔میں اپنا گریبان دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے آج اپنا گریبان پہلے سے کچھ زیادہ گندلا نظر آ رہا ہے۔ ہاں…مجھے لگتا ہے ، میرے اندر سے آواز آ رہی ہے۔ جب غریب انصاف کے لیے در، در کے دھکے کھاتا ہو، جب ملک کے کرپٹ ترین لوگ اعلیٰ ترین مناصب پر براجمان ہوں۔

جب غریب کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہو۔ جب کرپشن عروج پر ہو…تو سیلاب تو آئے گا۔آسمانی آفات تو آئیں گی۔قدرت ،جو کبھی ناانصافی نہیں کرتی۔ جو ازل سے انصاف کرتی آئی ہے اور ابد تک انصاف کرے گی، وہ ناانصافی کیوں کر کر سکتی ہے۔کہیں تو غلطی ہوئی ہے۔ کوئی تو اس کا ذمے دار ہے۔

 ہاں…مگر اس کے ذمے دار بھی تو تم ہی ہو۔تم ،ظلم دیکھ کر خاموش رہتے ہو۔ تم مظلوم کی مدد نہیں کرتے۔ تم جانتے ہیں کہ فلاں آدمی کرپٹ ہے، لیکن تم اس کی عزت کرتے ہیں۔ تمہارے لیے ظالم معتبر اور مظلوم ظالم ہے۔ تم عیاشی اور فحاشی دیکھتیہو،سنتے ہوا ور اس سے نفرت نہیں کرتے۔ ہاں…اب پتا چلا کہ پانی ہی پانی کیوں ہے…؟کہیں تو کچھ غلطی ہے…کہیں تو کچھ غلط ہو رہا ہے۔

اب تو مان لو…اب تو اپنی اصلاح کر لو…اس سے پہلے کہ سارے دروازے بند ہو جائیں…اس سے پہلے کہ یہ پانی ہمارے اپنے دروازے تک آ پہنچے…کچھ تو بہتری ہونی چاہیے۔کچھ تو اصلاح ہو۔خدا معاف کرتا ہے، اُس وقت تک ، جب تک آخری سانسہے۔کتنی آسانی ہے،انسان کے لیے۔شاید…کہ سنبھل جائے ۔شاید کہ رک جائے …گناہوں سے…شاید۔

یہ تو رمضان کا مہینہ ہے۔ یہ تو دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اگر تمسب ملکرمعافی مانگ لو ،شاید کہ رک جائے یہ پانی۔شاید رک جائے یہ سلسلہ آسمانی آفات کا…ورنہ۔

وعدہ کرو مجھ سے میرے چاہنے والو…جو مجھے 14 اگست کہتے ہو۔جو میرا احترام کرتے ہو۔وعدہ کرو،اگلے سال جب میں آؤں گا تو…تم اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہو گے۔ ۔وعدہ کرو لیکن ٹھہرو…پہلے معافی مانگ لو،اپنے رب سے اپنے گناہوں کی…مجھے امید ہے،تم میری آواز سنو گے ۔اک امید ہی تو ہے۔

مانا کہ   اندھیرے  بہت بڑھ  گئے  ہیں
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم

………………………………………………

ملک شکیل کی گزشتہ پوسٹ

نازیہ حسن: ہم تمہیں نہیں بھولے

قومی ترانے کی کہانی

تبصرہ کریں